اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO (الاحزاب، 33 : 56)
” بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo“
اسی طرح احادیثِ مُبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درود و سلام کی فضیلت و اہمیت کثرت سے بیان فرمائی ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل
فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور اس کےلئے دس درجات بلند کئے جاتے
ہیں۔“
(نسائی، السنن، کتاب السہو، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4 : 50، رقم: 1297)
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہوگا۔“
(ترمذی، الجامع، ابواب الوتر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 2 : 354، رقم: 484)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”(امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر
میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب
دیتا ہوں۔“
(ابو داود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، 2 : 218، رقم: 2041)
اسی طرح حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”بے شک تمہارے ایّام میں سے افضل ترین جمعہ کا دن ہے پس اُس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، 2 : 88، رقم: 1531)
حضرت ابوھُریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں
بھیجا۔“
( ترمذی، الجامع، ابواب الدعوات، باب قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: رغم انف رجل، 5 : 550، رقم: 3545)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے“
(طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 220، رقم: 721)
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔“
(طبرانی، المعجم الکبیر، 3 : 82، رقم: 2729)
فرمانِ الٰہی اور احادیثِ مبارکہ کے مطابق یہ حقیقت واضح ہے کہ درود و سلام ایک منفرد اور بے مِثل عبادت ہے، جو رضائے الٰہی اور قربتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اس مقبول ترین عبادت کے ذریعے ہم بارگاہِ ایزدی سے فوری برکات کے حصول اور قبولیتِ دعا کی نعمت سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔
صحابہء کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بھی اسی عبادت کے ذریعے اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا قرب پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مُعَطَّر سانسوں سے اپنی روحوں کو مہکایا اور گرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی تجلیات سے ہی صحابہ اکرام نے اپنے مُشامِ جاں کو منور کیا اور اس طرح انہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی تعلق اور سنگت کی نعمت نصیب ہوئی۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق ہی وہ نعمتِ خاص ہے جو آج ہمیں مقام و مرتبہ اور عزت و شرف جیسی لازوال نعمتوں سے نواز سکتی ہے۔
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظامِ عبادات پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کوئی عبادت ایسی دیکھائی نہیں دیتی جس کی قبولیت کا یقینِ کامل ہو جبکہ درود و سلام ایک ایسی عبادت اور ایسا نیک عمل ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ اِسی طرح تمام عبادات کیلئے مخصوص حالت، وقت، جگہ اور طریقِ کار کا ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ درود و سلام کو جس حال اور جس جگہ بھی پڑھا جائے اللہ تعالیٰ اُسے قبول فرما تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام تر عبادات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے وقت اوّل و آخر درود و سلام کا زینہ سجا دیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے صدقے ہماری بندگی اور عبادت کو قبول کر لے۔
بِحمدہ تعالیٰ تحریکِ مِنہاج القرآن کا خمیر عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تیار کیا گیا ہے اور اِس تحریک کا مرکز، حضور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان خانہ ہے، لہذا اس مصطفوی مہمان خانہ میں آنے والے معزز مہمانوں کیلئے گوشہء درود قائم کیا گیا ہے، جہاں حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرُالقادری مدظِلہ العالی کی زیرنِگرانی، درود و سلام پڑھنے کا سلسلہ بلا ناغہ 24 گھنٹے جاری و ساری رہے گا اور شب و روز کے اِن پرُ کیف لمحات میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ ہو گا جب اِس مصطفوی قافلہ سے وابستہ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اس عبادت سے خالی ہوں۔ یہ انتہائی ایمان افروز اور روح پرور لمحات ہوتے ہیں جب وطنِ عزیز اور بیرونِ ممالک بسنے والے غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوق در جوق، قریہ قریہ، نگر نگر درود و سلام کی محافل سجا کر اپنے ایمان کی تازگی اور زیادتی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اس عملِ خیر کی وجہ سے ہمیں اپنی بارگاہ کی برکاتِ کثیر عطا فرمائے اور ہمیں صحیح معنوں میں یہ عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، ہمارا قلبی و حُبِّی تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے! آمین
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا وَ مَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِه وَ صَحْبِه وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ
” اے اللہ! ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر، آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔“
جو تنظیمات علاقائی سطح پر گوشہء درود کا سلسلہ شروع کرنا چاہیں وہ درجِ ذیل اُمور کا خیال رکھیں:
اِنفرادی سطح پر گوشہء درود میں شرکت کیلئے درجِ ذیل اُمور کا خیال رکھیں:
نوٹ: یاد رہے کہ اِنفرادی سطح ہو یا اِجتماعی ہر حال میں گوشہء درود و سلام کے تمام آداب بجا لانا ضروری ہو گا۔
نوٹ: ان آداب و شرائط کی تکمیل کے بغیر چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے کیے جانے والے درودِ پاک کے وِرد کو گوشہء درود میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
پڑھے جانے والے درود و سلام کی تعداد درج ذیل طریقہ سے مرکز ارسال کریں۔
ہر ماہ کے پہلے ہفتہ کو بعد نماز عشاء مجلس ختم صلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منعقد ہوتی ہے، جس میں شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خطاب کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved